French Canadian People, Who Will Win Clippers Or Nuggets, Lego Bat Cave, Etfs In Traditional Ira Reddit, Faster, Cheaper, Better, Mummy Movies Wiki, Caroline Aherne And Craig Cash, The Bachelor Colton Reunion, Volt Target Price, Orere River Fishing, Ww2 Lost Films, Tottenham U18 Vs Arsenal, " /> French Canadian People, Who Will Win Clippers Or Nuggets, Lego Bat Cave, Etfs In Traditional Ira Reddit, Faster, Cheaper, Better, Mummy Movies Wiki, Caroline Aherne And Craig Cash, The Bachelor Colton Reunion, Volt Target Price, Orere River Fishing, Ww2 Lost Films, Tottenham U18 Vs Arsenal, " />

اردو کی نئی کتاب

”روحِ اردو“ سید روح الامین کی نئی کتاب ہے انہوں نے اردو زبان کی ترویج و ترقی اور نفاذ کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اقبالیات کے حوالے سے بھی نہایت عمدہ کتابیں مرتب کی ہیں۔ Islamic University, Islamabad, Pakistan. ‎نیو بکس اردو ۔۔۔ ہر قسم کی کتاب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے 03212043587‎ کلید اردو (معروضی کی اہم کتاب)۔ ڈاؤنلوڈ کریں . لالہ سری رام دہلوی کی کتاب پرانے لکھنؤ کی جھلکیاں مکمل آن لائن پڑھیے۔ ادبِ عالیہ (کلاسیکی اردو ادب)۔ مجلسِ برقی اشاعتِ ادبیاتِ عالیہ اور اردو گاہ کے تعاون سے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کی سب سے بڑی مفت لائبریری جس میں قرآن ، حدیث، تفسیر اور دیگر علوم اسلامیہ سےمتعلق ہزاروں کتب موجود ہیں۔ کتاب، ایک بہترین دوست یوں تو ایک انسان کے بہت سارے دوست ہوتے ہیں لیکن کسی بھی ایک شخص کا کوئی نہ کوئی ایک بہترین دوست ہوتا ہے اور بلا شبہ کسی بھی انسان یا شخص کے لئے دوست ایک بہترین نعمت ہے۔ طارق حسین بٹ کی نئی کتاب حیاتِ جاوداں کی تقریبِ رونمائی - Books Intro Articles & Cloumns - Large collection of latest & top Article & Cloumn on Books Intro at Hamariweb.com. اس کے بعدڈپٹی نذیر احمد کے توبہ النصوح کا مطالعہ ’معنی واحد اور معنیِ اضافی کی کشمکش‘ کے عنوان سے کیا گیا ہے اورمعاشرے میں افراد کی اس اصلاح کی صورت حال اور خواہش کو اجاگر کیا گیا ہے کہ جس کی خاطر یہ ناول لکھا گیا تھا۔ یہ پہلو حیران کن ہے کہ اردو ادب کی جدید تاریخ کا آغاز خالص ادبی یا فلسفیانہ نظریا ت سے نہیں ہوا بل کہ انگریزوں کی جانب سے کی جانے والی تعلیمی اور نصابی اصلاحات سے ہوا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اورئینٹل کالج بھی کافی عرصہ ایسے ہی اصلاح پسندوں کے نرغے میں رہا ہے اور وہ لوگ ایسے تدریسی ضابطوں سے آگے نہیں بڑھ سکے، ایک محدود وژن میں رہتے ہوئے تدریسی کام سرانجام دیتے رہے ہیں۔مگر ناصر عباس نیر جیسے نقادوں کے بعد اب ان بزرگ اور نوجوان نقادوں کو بھی اپنا قبلہ تبدیل کرنا پڑ رہا ہے۔ڈپٹی نذیر احمد کے تینوں ناول فلٹر تھیوری کے تحت وجود میں آئے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ’نو آبادیا ت نے مغربی جدیدیت کے کلامیوں کو تعلیمی پروٹوٹائپ میں سمونے کی کوشش کی‘۔ اسی وجہ سے ہی ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کو انگریز سرکار کی جانب سے انعامات سے نوازا گیا ۔ آج بھی ایسی ہی کتابوں کو انعام سے نوازا جاتا ہے کہ جو حکومتی مقاصد کو آگے بڑھا رہی ہوتی ہیں۔گویا نو آبادیاتی عہد ابھی بھی ویسا ہی چل رہا ہے۔ اس کے بعد اس کتاب میں دوسرا اہم مضمون سر سید اور اکبر الہ آبادی کے ’دوہرے شعور کی کشمکش‘ کو اجاگر کرتا ہے۔ ناصر عباس نیربجا طور پر ایک شخصیت کو پرومیتھیس اور دوسرے کو ایپا میتھیس قرار دیتے ہیں۔سرسیدؔ مستقبل کی طرف اور اکبرؔ ماضی کی طرف دیکھتے ہیں۔ مذہبی و سیکولر، ماضی پسندی و مستقبل آفرینی جیسے متضاد رویوں سے اکبرؔ ، سر سیدؔ اور حالیؔ کے ہاتھوں اردو ادب کی تشکیل جدید ہوئی، یہی اس مقالے کا نچوڑ ہے۔, اس کے علاوہ کتاب میں منٹو، شبلی، میرا جی، انتظار حسین کے تخلیقی وژن کے حوالے سے چار اہم مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ جن کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ منٹو کے افسانوں کی تفہیم ’متن اور حاشیہ‘کے تناظر میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’منٹو سماج کے حاشیائی کرداروں (کریم داد، ددا پہلوان، نکی، جانکی، سلطانہ، سوگندھی، زینو) کو افسانے کے کبیری کردار بناتے اور ان کے عزائم و طرزِ حیات کو افسانے کا نقطہ ارتکاز بناتے ہیں۔ یہ عمل بجائے خود مرکز سے بغاوت کا دوسرا نام ہے‘۔حاشیے اور متن کا روایتی تصور یہ ہے کہ حاشیے کو بنیادی متن ہی اپنے اندر سے، اپنی بعض ناگزیر حاجات کے تحت جنم دیتا ہے۔ متن جن باتوں کو مرکزی اہمیت نہیں دیتا مگر ان کا ہونا بہتر تفہیم کے لیے ناگزیر ہوتا ہے، اسے حاشیے کی صورت میں متن کے ساتھ ظاہر ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ حاشیہ ، متن کی اضافی وضاحت کرنے میں معاونت کرتا ہے مگر متن کے بنیادی معانی میں کوئی مداخلت نہیں کرتا۔مگر یہاں ناصر عباس نیر نے پسِ ساختیاتی فکر میں متن اور حاشیے کے کردار اور باہمی رشتے کاتصور متعارف کروایا ہے۔ ژاک دریدہ لکھتا ہے، ’’حاشیہ بہ یک وقت ، خاتمے اور آغاز، وحدت اور تقسیم، ذات اور غیر، یہاں اور وہاں ہے‘‘۔بقول ناصر عباس نیر،’’دوسرے لفظوں میں متن کا خاتمہ گویا حاشیے کا آغاز ہے۔ حاشیہ متن کو تقسیم بھی کرتا ہے اور دونوں میں ایک وحدت بھی قایم رکھتا ہے‘‘۔ منٹو کو ہندستانیوں کی شناخت حاشیائی حیثیت سے قبول نہ تھی اور نہ ہی وہ چاہتا تھا کہ وہ استعماری مرکز پر انحصار کریں۔ اس تناظر میں ناصر عباس نیر نے منٹو کے افسانوں کی نئی تعبیر مقالے میں پیش کی ہے۔, انتظار حسین کے فکشن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مشرق کی کتھا کہانی کی روایت کا احیا کیا، اسی وجہ سے وہ ماضی پرست کہلائے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا فکشن احیائی نہیں تشکیلی خصوصیت رکھتا ہے۔ وہ ہندی، سامی اور عجمی روایات کو بھی شامل کرتے ہیں۔ناصر عباس نیر، انتظار حسین کو اردو فکشن کے پہلے نمائندے کے طور پر قبول کرتے ہیں جنہوں نے جدید یوروپی فکشن کی تقلید میں لکھے گئے نو آبادیاتی فکشن کی شعریات میں مضمر ’غیر‘ کو پہچانا اور اس کا جوابی بیانیہ تخلیق کیا۔ انہوں نے کم وبیش وہی سوال قائم کیا جسے سرئیلسٹ پسندوں نے خواب کے ضمن میں اٹھایا تھا: کیا داستان، دیو مالا، نام نہاد توہمات کو زندگی کے اساسی سوالات کے سلسلے میں بروئے کار نہیں لایا جا سکتا؟اردو کے نو آبادیاتی فکشن نے جدید کاری کی ہمہ گیر روش کی پابندی کرتے ہوئے، جدید یورپی فکشن کی حقیقت نگاری کو قبول کیا اور خود اپنے قدیم فکشن کی روایت کو اپنا ’غیر‘ تصور کیا۔ ناصر عباس نیر لکھتے ہیں، ’’جدید افسانے کا قبلہ عصری حسیت تھا تو ترقی پسند افسانے کا سماج کا جدلیاتی تصور‘‘۔ انتظار حسین نے ان دونوں کے حقیقت کے تصور پر ہی سوال اٹھا دیا۔ ناصر عباس نیر نے ’’دو جذبیت کے تناظر میں شبلی کی تنقید کا جائزہ‘‘ میں شبلی نعمانی کی علیگڑھ سے وابستگی، حصولِ علم اور پھر سر سید سے اختلافات کی بنیاد پر یہ مقالہ لکھا ہے۔ علی گڑھ اور سر سید سے شبلی نعمانی کا تعلق ’دوجذبیت‘ یعنی تحسین وتنقید اور کشش اور گریز کا بہ یک وقت حامل تھا۔وہ علی گڑھ اور سر سید کے مداح بھی تھے اور نقاد بھی۔ سر سید ماضی کی کلیتاً نفی نہیں کرتے تھے جب کہ شبلی بازیافت کے بجائے احیا کے حامی تھے۔ شبلی نعمانی ، معنی و مضمون پر الفاظ کو اس لیے فوقیت دیتے ہیں کہ لفظ مستحکم ہے جب کہ معنی غیر مستحکم اور سیال ہے۔ لفظ پر گرفت قائم رکھنا ممکن ہے جب کہ معنی پر نہیں۔, کتاب کے دیباچے میں مصنف نے ’احیا‘اور ’بازیافت‘ کے درمیان امتیاز واضح کیا ہے، اس کے مطابق آج تک ہمارے نقاد ماضی کے پرشکوہ تصور کو واپس لانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جب کہ ناصر عباس نیر نے ماضی کو از سرِ نو با معنی بنانے کی کوشش کی ہے جسے وہ بازیافت سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’حقیقت یہ ہے کہ جدید اردو ادب اِن سب اسطوری تشکیلات کی نفی کرتا ہے جنہیں نو آبادیاتی عہد میں مرکز اور آفاقیت کے نام سے پیش کیا گیا‘۔ اس کے علاوہ بھی کتاب میں بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں ، کئی کے جوابات پیش کیے گئے ہیں مگر یہ کتاب ڈسکورس کی ایک صورت حال پیدا کرتی نظر آتی ہے جسے مصنف کی کامیابی قرا دیا جانا چاہئے۔, ناصر عباس نیر نے اردو ادب کے اس زمانے کو کہ جو نوآبادیات کا عہد تھا، سیاسی، سماجی، معاشی، اور تاریخی سطح پر تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد ان تمام اصناف میں کی جانے والی تخلیقات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ جس کے بارے میں ہمارے نقاد اجتناب برتتے رہے ہیں۔ تنقید کا یہ انداز اگر چہ مغرب سے مستعار لیا گیا ہے مگر اس کی وجہ سے ہمارے ہاں کے فکشن نگاروں اور شاعروں کے تخلیقی کام کی نئی جہات ہمارے سامنے آئی ہیں۔ ناصر عباس نیر ابھی نوجوان ہیں، ان کے پاس ادب کو سمجھنے کا ایک پیمانہ ہے، ان کے پاس توانائی بھی موجود ہے اور وہ بلا تکان لکھنے میں لذت محسوس کرتے ہیں، اس لیے ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے عہد کو متاثر کریں گے اور اردو ادب کی تنقید کے پرانے تدریسی ضابطوں میں دراڑ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ابھی تک ان کو ان کے اسلوب میں غیر مانوس اصطلاحات کے سبب اپنے پیش رو نقادوں کی مزاحمت کا سامنا ہے مگر یہ گرتی ہوئی دیواریں ہیں ، ان کو بس ایک اور دھکے کی ضرورت ہے۔ ناصر عباس نیر اگر اگلے چند برسوں تک ایسے ہی دل جمعی کے ساتھ لکھتے چلے گئے تو ان کو دھکا بھی دینے کی نوبت نہیں آئے گی اور اردو ادب کے نام نہاد تدریسی نقادین کی یہ کہنہ سال، خستہ اور بغیر بنیاد کے کھڑی دیواریں زمین بوس ہو جائیں گی۔, کیا ہم سب صرف اور صرف سماجی گناہ گار ہی ہیں؟, ناصر عباس نیر یہاں ہم چند باتیں، اینڈرسن کے ساختیات پر اعتراضات کے سلسلے میں کہنا چاہتے ہیں،ا س لیے کہ یہ کم وبیش وہی اعتراضات ہیں جنھیں اردو کے ترقی پسند نقاد بھی اکثر […], (ناصر عباس نیر) آئی کے ایف: چند ابتدائی باتیں علم کو دیسی بنانے(انڈیجنائزنگ) کا عمل ،سادہ ترین لفظوں میں کسی بھی علم کو ،خواہ وہ کہیں سے مستعار لیا ہو، یا خود تخلیق کیا ہو، […], انسانی عقل کی خودمختاری، ماڈرنیٹی اور یورپ (ناصر عباس نیر) یورپ یا مغرب کو ماڈرینٹی کا مہابیانیہ سمجھے جانے کا کرشمہ ہی ہے کہ مغرب یا یورپ کو ماڈرینٹی سے نہ تاریخی طور پر الگ […], اے ٹی ایم مشین کی یہی آواز، اُس وقت بھی آتی تھی جب دادی کے چرخا کاتنے کے وقت پاس بیٹھتا تھا۔ (دادی کے لفظ کو جُوں ہی دادی لکھا ہے تو یاد میں کسی طور پر وقت اتنی […], جیسے کہانی، ناول داخلی رغبت میں ممد و معاون ہیں اسی طرح طلباء کو ان کے سوالات بارے ٹھوس مدلل انداز میں جواب دینا ان کو اپنے جوابات تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے جس […], ہماری تعلیم کے دوران اکثر اساتذہ کرام سمجھایا کرتے تھے کہ over smartness یا ضرورت سے زیادہ اعتماد بھی آپ کی ناکامی کا سبب ہوتا ہے، ایسی ہی صورت حال موجودہ سینیٹ […], میں اکثر ان سے چند ان دوستوں کی حمایت پر الجھ جایا کرتا جو غیر نظریاتی اور ترقی پسندی کے نام پر دھوکا تھے، مگر شکور ہمیشہ کہتے کہ کامریڈ اس تنگ نظر سوچ کے سامنے […], سہتی کی یہ مدافعت نا تواں سی ہی رہتی ہے اور منصوبہ تیار ہو جاتا ہے۔ ہیر کھیت میں سانپ کے ڈسنے کا ناٹک کرتی ہے۔ جوگی جی سانپ کے زہر کے تِریاق کے بہانے کھیڑوں کے […], بھید میں پر لطف موڑ یہ آیا کہ جو مُسوّدہ اکاؤنٹنٹ کو بس کی سیٹ کے نیچے پڑا ہوا بس کنڈیکٹر نے تھمایا تھا، وہ اس کے خالق کی تلاش میں کہانیوں کے اندر اترتا رہا۔ […], جنھوں نے گدا گری سے ملتی جلتی یہ کاملیّت پرست آمریت چنی تھی، وہ احمق تو سادھو سَنّت اور اولیائے کرام جانے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں تو گفتگو ہی نہیں کی جا سکتی، […], مگر اب کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں قومی ٹیم چھٹی، ساتویں اور آٹھویں پوزیشن پر جا چکی ہے۔ جی ہاں گرین شرٹس کی کا حال ہی میں کیا گیا دورہ نیوزی لینڈ اپنی جگہ نا کام […], بس اتنا یاد ہے کہ ہم اس کے گھر میں داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ تنگ سیڑھیوں پہ چڑھتے چڑھتے ہماری سانس پھول گئی، مگر زینے تھے کہ ختم ہونے میں ہی نہ آ ر […], حکم ران طاقت ور طبقات اپنے دفاع اور پُر آسائش زندگی کے لیے ملکی آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے من پسند چاپلوس افراد کو خزانے پر بوجھ ڈال نوکریاں بانٹ […], مصنف اور تصنیف و تالیف: روزنِ تبصرۂِ کُتب, on ناصر عباس نیر کی نئی کتاب ’’ اُردو کی تشکیلِ جدید‘‘, on انسانی عقل کی خودمختاری،ماڈرنیٹی اور یورپ, ماحولیات، پائیدار مستقبل اور تعلیم و ترقیات, آئی کے ایف : علم کو کیوں کر مقامی ضرورتوں سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے؟, انسانی عقل کی خودمختاری،ماڈرنیٹی اور یورپ, ارے اے ٹی ایم تیری تیرا دماغ، تیری بد تہذیبی, رانجھے کا جوگ بیراگ اور شہری اخلاقیات قسطِ دوم, استاد کب چِلّہ کَشی کے فضائل تعلیم کرنے لگتے ہیں؟, پوسٹ میں شائع کی گئی رائے مصنف کی ہے اور ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا قطعی ضروری بھی نہیں ہے۔ کاپی رائٹ, بلا اجازت آرٹیکل نقل کر کے شائع کرنا کاپی رائٹ قوانین کے تحت ایک جرم ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ ایک اخلاقی جرم ہے۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات قانونی پابندیوں سے بہ قدرے زیادہ مؤثر و توانا ہونا اچھے اور دیانت دار معاشروں کا اہم اشاریہ ہوتے ہیں۔. ذخیرہ فن (معروضی)۔ ڈاؤنلوڈ کریں . کتاب عبرانی میں سونا کا استعمال کرکے لکھی گئی ہے۔ تیونس کے وزارت داخلہ کے مطابق گرفتار افراد اس تاریخی کتاب کو ایک لاکھ 85 ہزار ڈالر میں فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ نو آبادیاتی اور مابعد نو آبادیاتی تناظر میں حالی، نذیر احمد، سر سید، اکبر، منٹو، شبلی اور انتظار حسین کے کام کی تعبیر نو کی گئی ہے۔ ناصر عباس نیر اورئینٹل کالج پنجاب یو نیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد ہیں۔ وہ اردو ادب پڑھاتے ہی نہیں ہیں بل کہ اردو ادب کے موضوعات پر کئی برسوں سے مسلسل لکھ رہے ہیں۔ آج اُن کا نام ان کے ہم عصروں میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ قومی اور عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور انہوں نے یہ مقام کسی کے کاندھوں پر کھڑا ہو کر یا کسی کا بغل بچہ بن کر حاصل نہیں کیا بل کہ نہایت خاموشی سے پہلے تحقیقی و تنقیدی کام کئے، کتابیں لکھیں، مقالے چھاپے اور پھر ان کے نام کی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی۔اورئینٹل کالج میں شعبہ اردو کے چیئر مین ڈاکٹر محمدکامران ہیں جو خود بھی مختلف تحقیقی کاموں میں مصروف رہتے ہیں، شاعر بھی بہت اچھے ہیں اور ان میں تنظیمی صلاحیتیں بھی بے پناہ ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں پس منظر میں رہ کر کام کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ آج کل پرنسپل اور ڈین کے عہدے پر ڈاکٹر فخرالحق نوری ہیں جو تحقیقی اور تخلیقی کاموں کے علاوہ خوش گلو بھی ہیں۔ اورئینٹل کالج کے ساتھ پرانے اساتذہ میں ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی ،ڈاکٹرعبادت بریلوی، وقار عظیم ، سجاد باقر رضوی اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا نام آج بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔ خواجہ صاحب نے انتظامی عہدوں پر خود کو ایک اعتدال کے ساتھ رکھا مگر اُن کے بعد تو جیسے ایک خاص فکر کے گروپ کی چھاپ ہی لگ گئی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ یہاں شعبہ پنجابی میں ہمارے دوست اور خوبصورت شاعر ڈاکٹر ناہید شاہد بھی موجود ہیں۔یہاں کی ادبی تقریبات اور مشاعروں میں گذشتہ کچھ سالوں سے ایک خاص گروپ کو ہی بلایا جاتا رہا ہے۔, ناصر عباس نیر کا ایک ایسے ادارے میں موجود ہونا ادارے کے لیے باعثِ افتخار ہے اور ناصر عباس نیر کے لیے بھی یہ اعزاز کی بات ہے۔ ’اردو ادب کی تشکیل جدید‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا نیا تنقیدی بل کہ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ تخلیقی کام ہے جو حال ہی میں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے شایع ہوا ہے۔اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے ساتھ جب سے امینہ سید اور ڈاکٹر آصف فرخی کی وابستگی ہوئی ہے، مسلسل اردو ادب کی کلاسیک کے علاوہ نئے لکھنے والوں کی کتب بھی شایع ہو رہی ہیں۔ ان کا ایک ہی معیار ہے کہ کام معیاری ہونا چاہئے اور ناصر عباس نیر کی تو کئی کتابیں اوکسفرڈ سے شایع ہو چکی ہیں۔ ناصر عباس نیر کے ایم فل کے مقالے کا عنوان ’اردو تنقید میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت‘ جب کہ ڈاکٹریٹ کے مقالہ ’اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات‘ تھا۔ اس کے بعد ناصر عباس نیر ہائیڈل برگ یو نیورسٹی، جرمنی پوسٹ ڈاکٹرل تحقیق کے لیے تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ’نو آ بادیاتی عہد کے اردو نصابات کے ما بعد نو آبادیاتی مطالعے‘ کے موضوع پر نہایت محنت سے لکھا۔ ان برسوں میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کو نو آبادیاتی عہد کی سیاسی، سماجی اور معاشی تاریخ پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا جس نے اُن کے وژن کو تبدیل کر دیا اور وہ بالکل نئے زاویے سے اردو ادب کے تخلیقی عمل کی ترجیحات کو دیکھنے لگے۔ اُن کی دیگر تنقیدی کتب میں(۱) ’جدید اور مابعد جدید تنقید‘،(۲) ’مجید امجد:حیات، شعریات اور جمالیات‘،(۳) ’لسانیات اور تنقید‘،(۴) ’متن، سیاق اور تناظر‘،’(۵) ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری‘، اور(۶) ’ ما بعد نو آبادیات: اردو کے تناظر میں‘ شامل ہیں۔ اِن کتابوں کے ناموں سے ہی ناصر عباس نیر کے تنقیدی وژن اور اندازِ فکر کا پتہ چل جاتا ہے۔ سچ بات تو یہی ہے کہ ان موضوعات پر اردو ادب میں پاکستان میں وہ واحد تسلسل سے لکھنے والے محقق اور نقاد ہیں جن کی تنقیدی بصیرت نے نو آبادیاتی اور اس کے فوراً بعد کے اردو ادب کی تفہیم میں قابلِ ستائش کام کیا ہے۔ وہ کئی علوم کے تناظر میں اُس عہد کی ادبی سرگرمی اور تخلیقی عمل کو دیکھتے ہیں جس کے سبب ان کے ہاں ایک الگ تنقیدی جہت آ جاتی ہے۔ انہوں نے تنقید کی ایک نئی زبان اردو ادب میں متعارف کروائی ہے جس میں نئی اصطلاحات کے سبب پڑھنے والوں کو شروع میں دقت ہوتی ہے مگر جب وہ ایک بار ان سے شناسا ہو جاتے ہیں وہ ان تنقیدی مضامین کو زیادہ گہرائی میں جا کر سمجھ سکتے ہیں۔, ’اردو ادب کی تشکیل جدید‘ اپنے اندر نو آبادیاتی عہد میں تخلیق ہونے والے اردو ادب کی مختلف اصناف کے کئی گوشوں کو پہلی بار آشکار کرتی ہے۔ اس سے پہلے تو اردو ادب کے قارئین ادب پاروں کو گھسے پٹے تدریسی ضابطوں میں رہ کر ہی دیکھنے تک محدود ہو گئے تھے۔ان کے مضمون ’بر صغیر میں ’مسلم ثقافتی اثرات : نو آ بادیاتی تناظر‘ میں بنیادی سوال یہ اٹھا یا گیا ہے کہ انگریزوں کی طرح اُن سے قبل مغل بھی تو یہاں ہندستان پر قابض ہوئے اور انہوں نے تین سو سال حکومت کی ، اب اگر انگریز بھی باہر سے ہی آئے تو اِن میں اور مغلوں میں کیا فرق تھا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اردو ادب میں اتنی سنجیدگی سے پہلی بار اٹھایا گیا ہے اور انگریزی عہد کے تخلیقی سفر کو اس کتاب میں موازناتی سطح پر پیش کیا گیا ہے۔ناصر عباس نیر لکھتے ہیں، ’پورا برصغیر اقتصادی و سیاسی خودمختاراکائیوں پر مشتمل تھا۔ گاؤں ایک مکمل خود مختار اکائی تھا۔یہ خود مختاریت اقتصادی سطح پر تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاٹ بھی تھی۔ چوں کہ عوام اور حکمران طبقوں کے رشتے طے شدہ تھے، جنہیں ذات پات کا نظام مزید پختہ کرتا تھا، اس لیے ازمنہء وسطیٰ کا ہندستانی معاشرہ جدید لغت میں جامد معاشرہ تھا‘۔مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جدید لغت مرتب کرنے والے کون تھے؟ یہی انگریز جو آج بھی مرکز کی قوتوں کو کمزور کر کے نچلی سطح تک فوائد پہنچانا چاہتے ہیں۔ انگریزوں کا دعویٰ بھی یہی تھا کہ انہوں نے ایک عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کیا ہے۔ معاشرے میں تبدیلی تو تب بھی آ رہی تھی کہ جب جدیدیت نہیں تھی، روایت تھی۔ مگر اس وقت تبدیلی کا تناسب بہت کم تھا۔جدیدیت بہت کم وقت میں بڑے اسکیل پر تبدیلی لے آئی۔ یہ ایک عالم گیر تحریک تھی جس کے اثرات ساری دنیا پر پڑے۔ ایک گاؤں جو ایک خود مختار اکائی تھا، اسے توڑ دیا گیا۔ رشتوں کی توڑ پھوڑ ہوئی، مفادات کے حصول میں ایک عام آدمی کے دل میں خواہش پیدا ہوئی اور چند دہائیوں میں بہت کچھ تبدیل ہو گیا۔ ان تبدیلیوں کے ہمارے ہاں اردو ادب پر کیا اثرات پڑے، ناصر عباس نیر کے کام کا بیشتر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔, مولانا الطاف حسین حالی اپنی شاعری کو ’کچھ کذب و افترا ہے، کچھ کذبِ حق نما ہے‘ قرار دیتے تھے۔اس کتاب میں شامل مضمون پڑھنے کے بعد حالی کے شعری تناظر کی پہلی بار سمجھ آتی ہے کہ انہیں’ مسدس حالی‘ اور’ مقدمہ شعرو شاعری‘ لکھنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟وہ بات سر عبدالقادر سے شروع کرتے ہیں کہ ’قومی تصور کے بغیر ادب حقیقی اور سچی شاعری سے محروم تھا‘۔مولانا حالی کہتے ہیں کہ شاعری کذب ہے مگر ایک ایسا کذب جو حق کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔قومی شاعری کے بارے میں یہی فکر اقبالؔ پر آ کر منتج ہوتی ہے۔اس مقالے میں قومیت پرستی کے فروغ میں حالیؔ کی قومی شاعری نے جو کردار ادا کیا، اس پر بحث کی گئی ہے۔ ایسے سوالات کہ کیا یہ خیالات حالی ؔ کے شعری تخیل کی پیداوار تھے؟، یا کہیں سے مستعار لیے گئے تھے، کسی اندرونی تحریک کا نتیجہ تھے یا بیرونی دباؤ کے پیدا کردہ تھے؟ سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر غافر شہزاد نو آبادیاتی اور مابعد نو آبادیاتی تناظر میں حالی، نذیر احمد، سر سید، اکبر، منٹو، شبلی اور انتظار حسین کے کام کی تعبیر نو کی گئی ہے۔ ناصر عباس نیر اورئینٹل کالج پنجاب یو نیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد ہیں۔ 1 talking about this. Sulaiman Bin Abdullah Aba Al-Khail - Centre for Interdisciplinary Research in Basic Science (SA-CIRBS), Centre for Advanced Electronics & Photovoltaic Engineering, International Institute of Islamic Economics, Center of Excellence for Modern Languages (CEML), Iqbal International Institute for Research & Dialogue, International Journal of Distance Education and E-Learning (IJDEEL), International Journal of Innovation in Teaching and Learning (IJITL), Regional Dawah Centre (Sindh) Library, Karachi, اسلامی شریعت اور پاکستانی قانون میں خلع کی حیثیت – رسول اکرمﷺ کی سنت یا عدالتی اجتہاد؟, اس کتاب میں اسلامی شریعت کے بنیادی مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے خلع کے بارے میں فقہی مذاہب کی آرا کا جامع اور مدلل تجزیہ کیا گیا ہے۔ خلع کے متعلق احادیث کا روایت اور درایت کے پہلو سے جائزہ لینے کے علاوہ، قانونی دفعات، عدالتی نظائر اور اہم مقدمات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ نیزچیدہ چیدہ عدالتی فیصلوں کی فقہی بنیاد اور عدالتوں کے طریق استدلال پر بھی گفتگو کی گئی ہے؛ اور آخر میں علمی اور قابل عمل تجاویز دی گئی ہیں۔, امام محمد بن احمد القرطبی المالکی (م ۶۷۱ھ) کی مقبول عام اور جامع فقہی تفسیر الجامع لأحکام القرآن کا پہلا سلیس اردو ترجمہ, قیمت: 400 روپے + زر ترسیل- جلد اوّل . قیمت: 1000 روپے + زر ترسیل- جلد دوم, امام ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاص (م ۳۷۰ھ) کی شہرہ آفاق اور مستند فقہی تفسیر أحکام القرآن کا پہلا عام فہم اردو ترجمہ, اصول فقہ اسلامی پر ایک بھرپور اور جامع کتاب، جس میں اصول فقہ کی تعریف، مصادر فقہ، قواعد کلیہ اور فقہ اسلامی کے اصول تعبیر و تشریح جیسے موضوعات کا تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ تمام اہم فقہی مذاہب کے اصول اجتہاد و استنباط کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا ہے۔, قرونِ وسطیٰ کے عظیم محدث حافظ ابن حجر العسقلانی (م ۸۵۲ھ) کے مرتب کردہ فقہی احکام پر مشتمل مجموعہ احادیث بلوغ المرام من أدلة الأحکام کی مقبول و معروف شرح سُبل السلام از امام محمد بن اسماعیل الصنعانی الیمنی (م ۱۱۸۲ھ) کا اردو ترجمہ, قواعد اصولیہ میں فقہا کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثر, ڈاکٹر مصطفیٰ بن سعید بن محمود الخِن کی کتاب: أثر الاختلاف في القواعد الأصولیة في اختلاف الفقهاء کا اردو ترجمہ، جس میں قواعد اصولیہ کا علمی جائزہ لیا گیا ہے اور ان قواعد میں اختلاف کی وجہ سے فقہا کے درمیان فقہی اختلافات پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔, اصول فقہ پر ڈاکٹر عبدالکریم زیدان کی تالیف: الوجیز في أصول الفقه کا ترجمہ، جس میں مترجم/ مصنف ڈاکٹر احمد حسن کی طرف سے نہایت مفید اور اہم اضافے۔ اس کی نمایاں خصوصیات سہل اسلوب، حسن ترتیب اور جامعیت ہیں۔, اصول فقہ میں دلالات اور متقابلات کی بحث کو عام فہم انداز میں مثالوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جسے ایک مبتدی اور عام قاری بآسانی سمجھ سکتا ہے۔, شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب عقد الجید کا اردو ترجمہ، جس میں سلف کے اقوال کی روشنی میں اجتہاد و تقلید کی حدود اور اس باب میں راہ اعتدال کو مدلل انداز میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔, فقہ اسلامی کا ایک عمومی تعارف اور اس کے تشکیلی دور کی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ, اجتہاد کے تصور، آغاز اور ارتقا کے حوالے سے مستند معلومات فراہم کی گئی ہیں اور فقہا کے ساتھ ساتھ معاصر اہل علم کے نقطۂ نظر کو بھی پیش کیا گیا ہے۔, فقہ اور اصول فقہ کے بنیادی قواعد پر مشتمل کتاب۔ مختلف ابواب سے متعلق قواعد کلیہ کی مختصر تشریح اور ان کے آغاز و ارتقا اور اس موضوع پر لکھی گئی کتب کا تفصیلی تعارف۔, شیخ ابراہیم القطان کی عربی تحریر: الشریعة الإسلامیة صالحة لکل زمان ومکان کا اردو ترجمہ، جس میں اسلامی شریعت اور عصری تقاضوں کے باہمی ربط پر گفتگو کی گئی ہے، اور ان تمام اعتراضات کا شافی انداز میں جواب دیا گیا ہے جن کی دہائی دے کر شریعت سے گلو خلاصی کی دعوت دی جاتی ہے۔, فقہی اختلافات: حقیقت، اسباب اورآداب و ضوابط, اختلافِ فقہا کے حوالے سے پائے جانے والے شبہات، تحفظات اور سوالات کا علمی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے اور آداب اختلاف کے حوالے سے اسلاف اور ائمہ مجتہدین کے طرز عمل کی مثالوں کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے۔, ڈاکٹر عبدالکریم زیدان کی کتاب: المدخل لدراسة الشریعة الإسلامیة کا اردو ترجمہ۔ جس میں اسلامی شریعت کا مجموعی تعارف، خصوصیات اور فقہ اسلامی کے مصادر و مراجع کا تعارف، فقہ اسلامی کی روشنی میں متعدد قانونی ضوابط کا جائزہ، نظامِ ملکیت، نظریۂ عقد اور جرم و سزا کے مروج قوانین کا فقہ کی روشنی میں مطالعہ کیا گیا۔, مؤلف کے جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں دیے جانے والے بارہ خطبات جن میں اسلام کے قانون بین الممالک کے مختلف پہلووں مثلاً اسلامی ریاست کے دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات، اسلام میں آداب قتال، اہل ذمہ، غیر مسلم ریاستوں سے معاہدات کی پابندی، شریعت میں دار (ممالک) کی تقسیم وغیرہ کو عصر حاضر کے محاورے اور رائج اصطلاحات میں پیش کیا گیا ہے۔, فقہ حنفی کی مستند کتاب الهدایة لامام علی بن ابو بکر فرغانی مرغینانی (م ۵۹۳ھ) کا سلیس اردو ترجمہ, فقہ اور اصول فقہ کے دقیق موضوعات کو اردو خواں افراد تک سلیس اور سہل زبان و بیاں میں پہنچانے کی ایک کاوش، جس میں کچھ موضوعات ایسے بھی شامل کیے گئے ہیں جن پر فقہی انداز میں اردو زبان میں پہلے کوئی کام نہیں ہوا۔, بین الاقوامی تعلقات: اسلامی اور بین الاقوامی قانون کا تقابلی مطالعہ, نامور معاصر فقیہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی کی کتاب العلاقات الدولیة في الإسلام (مقارنة القانون الدولى الحدیث) کا اردو ترجمہ، جس میں اسلام میں بین الاقوامی تعلقات سے متعلق احکام کا جدید بین الاقوامی قانون کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔, قانون توہین رسالت: ایک سماجی، سیاسی اور تاریخی تناظر, قانون توہین رسالت پر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور اس کے غلط استعمال کے موقف کے حوالے سے انتہائی منطقی اور حقیقت پسندانہ انداز میں تاریخی، سماجی اور سیاسی پہلو سے جائزہ۔, حق کے بےجا استعمال یا قانونِ تعسف کے حوالے سے اسلامی احکام کا مطالعہ کیا گیا ہے اور دیگر اقوام کے قوانین کا تقابلی جائزہ لے کر اسلامی شریعت کی جامعیت اور سبقت کو اجاگر کیا گیا ہے۔, ڈاکٹر حمید اللہ، جسٹس شیخ عبد الحمید، ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی کے مقالات کا مجموعہ، جس میں عہد نبوی کے نظام تشریع و عدلیہ، رسول اللہﷺ بحیثیت قانون دان اور رسول اللہﷺ اور قانون بین الممالک جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔, دساتیر پاکستان کی اسلامی دفعات کا ایک تجزیاتی مطالعہ, وطن عزیز کے تینوں دساتیر کی اسلامی دفعات کا اصل ماخذ کی بنیاد پر تجزیاتی، تقابلی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔, نامور مصری فقیہ محمد ابو زہرہ کی کتاب الجریمة والعقوبة في الفقه الإسلامي سے ماخوذ تحریر کا اردو ترجمہ، جس میں حدود کے معاملات میں شبہہ کا کردار اور اس کے تفصیلی اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔, خرید و فروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت, ڈاکٹر محمد توفیق رمضان البوطی کی کتاب البیوع الشائعة وأثر ضوابط المبیع على شرعیتها کا اردو ترجمہ، جس میں تجارت اور خرید و فروخت کی رائج جدید شکلوں کا فقہ اسلامی کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔, ڈاکٹر عوض محمد عوض کی عربی تحریر کا اردو ترجمہ، جو اسلامی قانون قصاص و دیت کے ایک اہم موضوع “عاقلہ” سے متعلق ہے۔ عاقلہ سے مراد کسی شخص کی وہ مددگار برادری ہے جس سے وہ عام طور پر دیت کی ادائگی میں مدد طلب کرتا ہے۔ عاقلہ کے متعلق فقہا کا موقف اور ان کے درمیان اختلاف کی بنیاد پر مشتمل کتاب۔, اسلامی شریعت میں انسانی جان کی حرمت اور تحفظ کے لیے جو احکام وضع کیے گئے ہیں قانون قسامت ان میں سے ایک ہے جو کہ دراصل جرمِ قتل کے ثبوت سے متعلق ہے جب قاتل نامعلوم ہو اور اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہ ہوں۔ زیر نظر کتاب اسی موضوع سے متعلق فقہی آرا کے جائزے پر مشتمل ہے۔, دین اسلام میں مخصوص حالات کے لیے عام قواعد میں جو استثناءات رکھے گئے ہیں ان سے متعلق احکام کو بالعموم نظریہ ضرورت کے تحت زیر بحث لایا جاتا ہے۔ یہ کتاب انہی احکام سے متعلق ہے۔, 2008ء میں اکیڈمی کے زیر اہتمام حدود قوانین کے عملی پہلوؤں پر کرائی جانے والی کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ، جس میں حدود قوانین پر ہونے والے اعتراضات کا علمی اور تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کے نفاذ میں حائل عملی مشکلات کا حل تجویز کیا گیا ہے۔, آبی و نباتاتی ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ: فقہ اسلامی کی رشنی میں, ڈاکٹر احمد بن یوسف الدریویش کی تالیف أحکام البیئه کا اردو ترجمہ، جس میں آبی و نباتاتی آلودگی کے بارے میں احکامِ فقہ کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ان امور کی وضاحت کی گئی ہے جو آبی و نباتاتی ماحول کے ساتھ برتاؤ اور تعاون سے متعلق ہیں۔, ڈاکٹر احمد بن یوسف الدریویش کی کتاب الزواج العرفي کا اردو ترجمہ۔ بعض اسلامی ممالک اور مسلم اقلیتی علاقوں میں مختلف ناموں سے رواج پانے والی نکاح کی نئی صورتوں کا شرعی اور سماجی جائزہ, میراث و وصیت کے تمام مشکل و دقیق مباحث کا آسان زبان اور سہل انداز میں بیان جسے پڑھ کر وراثت و وصیت سے متعلق شرعی احکام کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔, امام ابن تیمیہؒ کی کتاب الحسبة في الإسلام کا اردو ترجمہ، جس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نظام کے ذریعے شعائر دینیہ کی اقامت و تعظیم، معاشرے میں اسلامی تشخص کے تحفظ اور رفاہِ عامہ کے باب میں اسلام کے زریں اصولوں کو نافذ عمل کرنے کی خاطر حسبہ کا جو مؤثر نظام دیا ہے اس کے بارے میں ابن تیمیہ کا موقف پیش کیا گیا ہے۔, قیام پاکستان کے مقاصد کو واضح کرنے اور نئی نسل کو ان سے روشناس کرانے کے لیے خود قائدین و بانیان تحریک پاکستان کے افکار و تقاریر پر مشتمل کتاب، (قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، نواب بہادر یار جنگ، مولانا شبیر احمد عثمانی، نواب زادہ لیاقت علی خان اور چوہدری رحمت علی), الاِحکام فی تمییز الفتاوی عن الاحکام و تصرفات القاضی والِامام, (مفتی، قاضی اور انتظامیہ کے دائرہ ہائے کار), ڈاکٹر احمد بن یوسف الدریویش کی کتاب التطرّف الديني: تعريفه وأسبابه ومؤشراته وعلاجه وجهود الجامعة الإسلامية العالمیة في محاربته کا اردو ترجمہ، جس میں مذہبی انتہا پسندی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے متعدد اقدامات تجویز کیےگئے ہیں اور اس سلسلے میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔, ڈاکٹر احمد بن یوسف الدریویش کی کتاب الاستقامة أرکانها والوسائل المعینة على تطبیقیها کا اردو ترجمہ، جس میں انتہا پسندی سے پیدا ہونے والے مسائل کا علمی انداز میں مطالعہ کیا گیا ہے اور راست روی کے بنیادی اصولوں اور اس کے عملی طریق کار پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔, بین الاقوامی فورم براے فروغ رواداری اردن کے تعاون سے شریعہ اکیڈمی کے تحت مذکورہ موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مقالات کا مجموعہ, اجتہاد و استنباط اور راے کے استعمال کے حوالے سے سلف صالحین کے طریقہ کار اور قواعد و ضوابط سے روشناس کرانے کی ایک بلند پایہ علمی کاوش.

French Canadian People, Who Will Win Clippers Or Nuggets, Lego Bat Cave, Etfs In Traditional Ira Reddit, Faster, Cheaper, Better, Mummy Movies Wiki, Caroline Aherne And Craig Cash, The Bachelor Colton Reunion, Volt Target Price, Orere River Fishing, Ww2 Lost Films, Tottenham U18 Vs Arsenal,

About the author:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *